Khalid bin Walid: The Undefeated Commander of the World
Khalid bin Walid, known as the “Sword of Allah,” was one of the greatest generals in history. He fought in more than 100 battles and never lost a single one. His military skills were so strong that both enemies and allies respected him. He became a Muslim after the Treaty of Hudaybiyyah and soon became a key leader in the Muslim army.
In the Battle of Yarmouk (636 CE), his army of just 40,000 soldiers defeated the Byzantine army, which had 150,000 men. In the Battle of Walaja, he used a smart strategy called double envelopment, which trapped the enemy from both sides. He also created a mobile guard, a fast group of fighters who could move quickly across the battlefield.
Must Read: Battle of Yamama – یمامہ کی جنگ مکمل تفصیل
Khalid bin Walid Early Life: ابتدائی زندگی
خالد بن ولیدؓ کی پیدائش 592ء میں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کا تعلق قریش کے معروف قبیلے بنو مخزوم سے تھا، جو مکہ کے معزز اور جنگی مہارت رکھنے والے خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ ان کے والد، ولید بن مغیرہ، قریش کے بڑے سردار اور مالدار افراد میں شامل تھے۔ اسلام سے پہلے خالدؓ ایک بہادر، ہوشیار اور تجربہ کار سپاہی کے طور پر جانے جاتے تھے، اور غزوہ اُحد میں انہوں نے قریش کی طرف سے اہم کردار ادا کیا۔
صلح حدیبیہ (6 ہجری) کے بعد جب انہوں نے اسلام کا اصل پیغام سمجھا تو دل سے متاثر ہو کر مدینہ منورہ آئے اور اسلام قبول کر لیا۔ ان کا اسلام لانا ایک تاریخی تبدیلی تھی، کیونکہ وہ بعد میں “سیف اللہ” یعنی “اللہ کی تلوار” کے لقب سے جانے گئے اور اسلام کے عظیم سپہ سالار بنے۔
Khalid bin Walid Sword of Allah: خالد بن ولید – ( اللہ کی تلوار )
خالد بن ولیدؓ کو “سیف اللہ” یعنی “اللہ کی تلوار” کا لقب نبی کریم ﷺ نے عطا فرمایا، جو ان کی شجاعت اور جنگی مہارت کا اعتراف تھا۔ اس لقب کے پیچھے ایک معروف واقعہ یہ ہے کہ جنگِ موتہ (629 عیسوی) کے دوران جب مسلمانوں کے تین سپہ سالار شہید ہو گئے، تو خالد بن ولیدؓ نے نہایت مہارت سے قیادت سنبھالی اور دشمن کے گھیراؤ سے فوج کو کامیابی سے نکال لیا۔
اس عظیم حکمتِ عملی پر حضور ﷺ نے فرمایا: “خالد اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔” اسی دن سے وہ “سیف اللہ” کے نام سے مشہور ہو گئے۔ بطور سیف اللہ، خالد بن ولیدؓ نے اسلام کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں انہوں نے مرتدین کے خلاف جنگوں میں قیادت کی، عراق اور شام میں ساسانی اور بیزنطینی سلطنتوں کے خلاف تاریخی فتوحات حاصل کیں۔ ان کی قیادت میں مسلمانوں نے یرموک (636 عیسوی) کی جنگ میں بیزنطینی فوج کو شکست دی، جو اسلامی فتوحات میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ خالدؓ کی بہادری، حکمت، اور ایمان نے انہیں اسلامی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش ہیرو بنا دیا۔
Must Read: موقع موعد الاذان – دليلك اليومي للصلاة في كل مكان
Major Battles of Khalid bin Walid: خالد بن ولید کی اہم لڑائیاں
غزوہ موتہ (8 ہجری/629 عیسوی)
غزوہ موتہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی پہلی جنگ تھی جسے انہوں نے مسلمان کے طور پر لڑی تھی۔ اس جنگ میں، صرف 3,000 مسلمان 100,000 بیزنطینی فوجیوں کے مقابلے میں تھے۔ جنگ کے دوران، مسلم فوج کے تینوں کمانڈر – زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ عنہم) – شہید ہو گئے۔ ایسے نازک موقع پر خالد بن ولید نے فوج کی کمان سنبھالی اور اپنی حکمت عملی سے مسلمانوں کو محفوظ واپس لے آئے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جنگ کے بعد انہیں “سیف اللہ” (اللہ کی تلوار) کا لقب دیا۔
Must Read: The Battle of Karbala: A Tragedy That Changed Islamic History Forever
فتح مکہ (8 ہجری/630 عیسوی)
مکہ کی فتح میں خالد بن ولید نے مسلم فوج کے ایک حصے کی قیادت کی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مکہ کے جنوبی حصے سے داخل ہونے کی ذمہ داری دی تھی۔ اگرچہ حکم تھا کہ مکہ میں خون ریزی سے گریز کیا جائے، لیکن خالد کے راستے میں کچھ مکہ والوں نے حملہ کیا۔ خالد نے مقابلہ کیا اور اس جھڑپ میں کچھ مشرکین مارے گئے۔ مکہ کی فتح کے بعد، مکہ مسلمانوں کے زیر تسلط آ گیا۔
غزوہ حنین (8 ہجری/630 عیسوی)
مکہ کی فتح کے فوراً بعد، ہوازن اور ثقیف قبائل نے مسلمانوں کے خلاف بڑی فوج جمع کی۔ اس جنگ میں خالد بن ولید نے مسلم فوج کے مقدمے (اگلی صف) کی قیادت کی۔ ابتدائی حملے میں مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا، لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت اور حوصلہ افزائی سے مسلمان واپس لڑے اور آخر کار فتح حاصل کی۔ خالد بن ولید اس جنگ میں بہت بہادری سے لڑے۔
بزاخہ، المقر اور غمرہ کی لڑائیاں
خالد بن ولید نے حروف ردہ (ارتداد کی جنگوں) کے دوران بزاخہ، المقر اور غمرہ کی لڑائیوں میں اسلام سے پھرنے والوں کو شکست دی۔ ان جنگوں میں انہوں نے اپنی فوجی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
معرکہ یمامہ (11 ہجری/632 عیسوی)
حروف ردہ کے دوران، خالد بن ولید کو مسیلمہ کذاب اور اس کی قوم بنو حنیفہ کے خلاف بھیجا گیا۔ مسیلمہ نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور بہت سارے پیروکار جمع کر لیے تھے۔ یمامہ کا معرکہ بہت سخت تھا، جس میں دونوں طرف سے بھاری نقصان ہوا۔ خالد نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور اپنے خاص سواروں کے ساتھ حملہ کیا۔ جنگ کا آخری مرحلہ “باغ موت” میں لڑا گیا، جہاں مسیلمہ مارا گیا اور بنو حنیفہ کو شکست ہوئی۔
معرکہ اجنادین (13 ہجری/634 عیسوی)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران، خالد بن ولید کو شام کی طرف بھیجا گیا۔ اجنادین کا معرکہ مسلمانوں اور بیزنطائن سلطنت کے درمیان پہلا بڑا مقابلہ تھا۔ اس جنگ میں خالد بن ولید نے کم تعداد میں ہوتے ہوئے بھی دس گنا بڑی بیزنطینی فوج کو شکست دی۔ یہ فتح شام کے علاقے میں مسلمانوں کی پیش قدمی کے لیے اہم ثابت ہوئی۔
معرکہ دمشق (14 ہجری/635 عیسوی)
دمشق کا محاصرہ اور فتح خالد بن ولید کی اہم کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے دمشق کا 6 ماہ تک محاصرہ کیا اور آخر کار ایک جسورانہ حملے سے شہر میں داخل ہوئے۔ ایک کہانی کے مطابق، خالد نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ شہر کی دیوار سے رسیوں کے ذریعے چڑھ کر دروازہ کھول دیا، جس سے مسلم فوج داخل ہو گئی۔ دمشق کی فتح کے بعد، مسلمانوں نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ عدل اور انصاف کا سلوک کیا۔
معرکہ فحل (13 ہجری/634 عیسوی)
فحل کی جنگ میں، خالد بن ولید نے اردن کے علاقے میں بیزنطائن فوجوں کو شکست دی۔ اس معرکے میں انہوں نے دلدلی علاقے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کو پھنسایا اور پھر حملہ کیا۔ فحل کی فتح کے بعد، مسلمانوں کو اردن کے علاقے پر کنٹرول حاصل ہو گیا۔
Must Read: Battle of the Bulge: Causes, Casualties, Significance, and Who Won
معرکہ یرموک (15 ہجری/636 عیسوی)
یرموک کا معرکہ اسلامی تاریخ کی اہم ترین جنگوں میں سے ایک ہے۔ اس جنگ میں 40,000 مسلمانوں کی فوج 150,000 بیزنطائن سپاہیوں کا سامنا کر رہی تھی۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بہترین حکمت عملی استعمال کی، جس میں محاذ کی تقسیم، سواروں کی موثر تعیناتی اور حملہ آور گروہوں کا استعمال شامل تھا۔ یہ جنگ کئی دن جاری رہی، لیکن آخر کار مسلمانوں نے بیزنطائن فوج کو بری طرح شکست دی۔ یہ اسلامی تاریخ کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔ اس فتح کے بعد، شام کا پورا علاقہ مسلمانوں کے زیر تسلط آ گیا۔
فراض کی لڑائی
فراض کی لڑائی میں خالد بن ولید نے ساسانی، بیزنطینی اور عرب مشرکین کی متحدہ فوج کو شکست دی۔ یہ ان کی فوجی قابلیت کا ایک اور ثبوت تھا۔
معرکہ ذات السلاسل (8 ہجری/629 عیسوی)
غزوہ ذات السلاسل میں، خالد بن ولید نے عمرو بن العاص کی قیادت میں مسلم فوج کے ایک حصے کی قیادت کی۔ یہ مہم قضاعہ قبیلے کے خلاف تھی، جو روميوں کے ساتھ مل کر حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ مسلمانوں نے اس مہم میں کامیابی حاصل کی اور دشمن کو شکست دی۔
Must Read:
معرکہ القادسیہ (16 ہجری/637 عیسوی)
اگرچہ خالد بن ولید براہ راست معرکہ القادسیہ میں شامل نہیں تھے، لیکن انہوں نے اس کی تیاری میں مدد کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خالد کو فوج کی کمان سے ہٹا دیا تھا، لیکن وہ سعد بن ابی وقاص کی فوج میں ایک معمولی سپاہی کے طور پر شامل ہوئے۔ اس جنگ میں ساسانی سلطنت کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے عراق پر قبضہ کر لیا۔
Must Read: The Battle of Agincourt: How 6,000 Englishmen Crushed a French Army of 30,000
خالد بن ولید کی فوجی حکمت عملی
خالد بن ولید کی خاص بات ان کی سمجھدار حکمت عملی اور متحرک فوجی انداز (Mobile Guard) تھا، جس نے آج تک مورخین اور جنگی ماہرین کو حیران کر رکھا ہے۔ وہ اپنے دور کے بہترین فوجی کمانڈر تھے، جنہوں نے تکنیکی طور پر برتری رکھنے والی فوجوں کو بھی شکست دی
Famous Quotes by Khalid bin Walid: خالد بن ولید کے مشہور اقوال
Some famous quotes by Khalid bin Walid that reflect his bravery, wisdom, and faith:
اگر موت مجھے میدان جنگ میں آتی، تو خالد کے لیے کیا ہی خوبصورت موت ہوتی۔
میں چاہتا ہوں کہ برفانی رات ہو، اور میں اپنے گھوڑے پر سوار، مسلم لشکر کو دشمن کے کیمپ کی طرف لے جا رہا ہوں۔
Death and Burial of Khalid bin Walid: خالد بن ولید کی وفات اور تدفین
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی وفات 642 عیسوی (21 ہجری) میں حمص (موجودہ شام) میں ہوئی۔ اپنی آخری سانسوں میں انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ شہادت کی موت نہیں مر سکے، جبکہ انہوں نے سینکڑوں جنگیں لڑیں۔ مشہور ہے کہ انہوں نے کہا، “میں نے اتنی جنگیں لڑیں کہ میرے جسم پر کوئی ایسی جگہ نہیں بچی جہاں زخم نہ ہو، اور پھر بھی میں اپنے بستر پر مر رہا ہوں جیسے اونٹ مرتا ہے۔ بزدلوں کی آنکھیں کبھی نیند نہ پائیں۔”
انہیں حمص میں ہی دفن کیا گیا جہاں ان کا مزار آج بھی موجود ہے اور عقیدت مندوں کی زیارت گاہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مرتے وقت انہوں نے اپنی تمام جائیداد اللہ کی راہ میں دے دی تھی۔ ان کی وفات پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بہت افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ عرب خواتین اب خالد جیسے مرد کو جنم دینے سے قاصر ہیں۔
خالد بن ولید کی وفات کے ساتھ اسلام نے اپنا ایک عظیم سپہ سالار کھو دیا، جس کا نام آج بھی فوجی تاریخ کے درخشاں ستاروں میں شمار کیا جاتا ہے
Must Read: Battle of Stalingrad: Casualties, Importance, Why Happened and Who Won
Legacy and Lessons: ورثہ اور اس سے سیکھنے کے اسباق
خالد بن ولیدؓ نے جنگوں میں بے شمار فتوحات حاصل کیں اور ان کی حکمت عملی نے اسلامی فوجی تاریخ کو ایک نیا رخ دیا۔ ان کی قیادت اور جنگی حکمت عملی آج بھی فوجی حکام کے لیے ایک اہم مثال ہے۔
خالد بن ولیدؓ کی زندگی سے ہمیں سیکھنے کو ملتا ہے کہ سچی قیادت دل سے ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے سپاہیوں کا خیال رکھتے، ان کے ساتھ مشاورت کرتے اور انہیں صحیح راستہ دکھاتے۔ ان کی قیادت میں صرف طاقت نہیں بلکہ حکمت بھی شامل تھی۔
خالدؓ کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ ایمانداری، بہادری اور محنت سے دنیا میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان کی زندگی کا مقصد صرف جنگ نہیں تھا بلکہ وہ ہمیشہ اللہ کی رضا کے لیے لڑتے تھے۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو ان کی زندگی سے سیکھنا چاہیے کہ کامیابی کے لیے ایمانداری، شجاعت اور حکمت ضروری ہے۔
Must Read: Oldest Religions in the World- A Comprehensive and Detailed Overview
Conclusion: Who is Khalid bin Walid?
Khalid ibn al-Walid was one of the greatest military leaders in history. Khalid bin Walid smart strategies helped him conquer large areas, covering almost 3.8 million square kilometers in just 11 years (632-643 CE). His legacy isn’t just about winning wars. Even though he won over 70 battles, Caliph Umar removed him from his leadership role.
But Khalid bin Waleed stayed loyal and served as a regular soldier. His military skills are still taught in over 400 military schools worldwide. He is remembered for his humility and strength. In a 2019 survey, 78% of people in 35 Muslim-majority countries named him as one of their top role models.







